5 دسمبر، 2025، 8:11 AM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

حضرت اُمّ‌البنینؑ نے اپنے بچوں کو اشراف زادہ نہیں بلکہ ولایت اور امامت کا خادم بنایا

حضرت اُمّ‌البنینؑ نے اپنے بچوں کو اشراف زادہ نہیں بلکہ ولایت اور امامت کا خادم بنایا

اس عظیم ماں نے اپنے بیٹوں کو سید زادہ کہلانے کے بجائے امام حسینؑ کی خدمت اور ان سے وفاداری کے لیے پروان چڑھایا۔ حضرت عباسؑ اسی تربیت کا درخشاں ثمر ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، ثقافتی ڈیسک: حضرت اُمّ‌البنینؑ کا نام تاریخ میں ایک باوقار اور دانا خاتون کے طور پر درج ہے۔ ان کی زندگی ولایت کے ساتھ باشعور وفاداری کی نمایاں مثال ہے۔ وہ ایسے ماحول میں پروان چڑھیں جہاں شرافت، غیرت اور پاکیزگی کو بنیادی مقام حاصل تھا۔ امیرالمؤمنینؑ کے گھر میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے ماں کا کردار نہایت حکمت اور بصیرت کے ساتھ ادا کیا۔ ان کی تدبیر اور ادب نے حضرت زہراؑ کے فرزندوں کے مقام کو محفوظ رکھا اور یہ رویہ ان کی دین فہمی اور اہل بیتؑ کی منزلت کے گہرے ادراک کا مظہر تھا۔ یہی خصوصیات باعث بنیں کہ ان کا نام شیعہ تاریخ میں بصیرت، شجاعت اور تربیت کی علامت کے طور پر ہمیشہ باقی رہا اور حضرت عباسؑ جیسے فرزند کی شخصیت کو سمت دی۔ اپنی زندگی کا زیادہ حصہ امامت اور ولایت کی خدمت میں گزارنے کے بعد حضرت ام البنینؑ 13 جمادی الثانی کو رحلت کرگئیں۔

مہر نیوز نے حضرت ام البنینؑ کی زندگی کے بارے میں مزید جاننے کے لئے حوزہ علمیہ کے استاد حجت الاسلام سید محمد باقر علم الھدی سے خصوصی گفتگو کی ہے جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے:

جناب ام البنینؑ کے مقام اور منزلت کے بارے میں بتائیے۔

حضرت فاطمہ بنت حِزام، جو "اُمّ‌البنینؑ" کے نام سے مشہور ہیں، اسلام کی عظیم اور کم نظیر خواتین میں سے ہیں۔ ان کا نام وفاداری، ادب، معرفت اور ایثار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ان کا خاندان "بنی کلاب" عرب کے شجاع اور شریف قبائل میں شمار ہوتا تھا، اور یہی نسب و تربیت ان کی شخصیت کو ممتاز بناتا تھا۔

حضرت زہراؑ کی شہادت کے بعد امیرالمؤمنین علیؑ نے اس خاتون سے نکاح کیا۔ اُمّ‌البنینؑ نے ابتدا ہی سے خود کو اس گھر کی خدمت گزار سمجھا اور حضرت زہراؑ کے فرزندوں کے ساتھ نہایت ادب، احترام اور محبت سے پیش آئیں۔ روایت ہے کہ وہ کہتی تھیں: مجھے فاطمہ نہ کہو، کہیں بچوں کو اپنی ماں یاد آ جائے اور دل دکھ جائے۔

اس ازدواج کا نتیجہ چار فرزند تھے: عباسؑ، عبداللہؑ، جعفرؑ اور عثمانؑ۔ ان کی تربیت، خصوصا حضرت عباسؑ کی شخصیت سازی، اُمّ‌البنینؑ کے معنوی مقام اور حکیمانہ مادری کردار کی روشن دلیل ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو بچپن ہی سے امام حسینؑ کی محبت اور اطاعت میں پروان چڑھایا اور بارہا کہا کہ میرے بیٹے حضرت زہراؑ کے بیٹوں پر قربان ہوں۔

اُمّ‌البنینؑ کا مقام واقعۂ کربلا میں پوری طرح ظاہر ہوا۔ انہوں نے لاعلمی یا غفلت سے نہیں بلکہ مکمل شعور اور معرفت کے ساتھ اپنے بیٹوں کو امام حسینؑ کی نصرت کے لئے بھیجا۔ عاشورا کے بعد جب انہیں فرزندوں کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے سب سے پہلے کہا: مجھے حسینؑ کے بارے میں بتاؤ؛ میرے بیٹے حسینؑ پر قربان ہوں۔ یہ مختصر جملہ ان کے ایمان کی گہرائی اور روح کی بلندی کو ظاہر کرتا ہے۔

واقعہ کربلا کے بعد جناب ام البنینؑ نے کیا کردار ادا کیا؟

عاشورا کے بعد مدینہ میں حضرت اُمّ‌البنینؑ عزاداروں کے لیے ایک پناہ گاہ اور اہل بیتؑ کی مظلومیت بیان کرنے والی شخصیت بن گئیں۔ روایت ہے کہ لوگ ان کے گھر کے گرد جمع ہوتے اور وہ اپنے دردناک مرثیوں کے ذریعے کربلا کے پیغام کو زندہ رکھتی تھیں۔ اسی وجہ سے علما نے انہیں "راوی عاشورا" اور "وفادار خاتون" کا لقب دیا۔

حضرت اُمّ‌البنینؑ کی شخصیت کئی پہلوؤں سے درخشاں ہے؛ امامت کے مقام کی گہری معرفت، اہل بیتؑ کے گھر میں بے مثال ادب اور وفاداری، مجاہد اور فداکار فرزندوں کی تربیت، صبر و استقامت کی شاندار مثالیں اور کربلا کے پیغام کو زندہ رکھنے میں مؤثر کردار ان کی زندگی کے نمایاں پہلو ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معتبر روایات اور زیارتوں میں شیعہ ان کے لیے بلند مقام اور وسیع شفاعت کے قائل ہیں اور انہیں ایک شہید پرور ماں، ولایت کی پیروکار خاتون اور ادب و اخلاص کی مثالی شخصیت سمجھ کر ان سے توسل کرتے ہیں۔

حضرت ام البنینؑ نے کن معیارات پر اولاد کی تربیت کی؟

حضرت اُمّ‌البنینؑ اسلام کی ممتاز خواتین میں سے ہیں؛ نہ صرف اس لیے کہ وہ حضرت عباسؑ اور ان کے تین بھائیوں کی والدہ تھیں بلکہ اس لیے بھی کہ انہوں نے امیرالمؤمنینؑ کے گھر میں ایک خاص طرز تربیت قائم کیا۔ جب ہم ان کی تربیت کی بات کرتے ہیں تو چار نمایاں اصول سامنے آتے ہیں۔ سب سے پہلا اصول ولایت کے ساتھ کامل وفاداری تھا۔ ان کا سب سے اہم طریقہ یہ تھا کہ بیٹوں کو اپنے فرزند کے طور پر نہیں بلکہ ان کو علیؑ کے فرزند کے طور پر پروان چڑھایا۔ آپ بارہا کہا کرتی تھیں: میں نے اپنے بیٹوں کو حضرت فاطمہؑ کے بیٹوں پر قربان کر دیا ہے۔ یہی سوچ کربلا میں اپنی انتہا کو پہنچی، جہاں ان کی تربیت جذبات پر نہیں بلکہ ذمہ داری اور مشن پر مبنی تھی۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو امام وقت کے دفاع کے لیے تیار کیا۔  

دوسرا اصول شجاعت کے ساتھ ادب کی تربیت تھا۔ حضرت عباسؑ اور ان کے بھائیوں میں جو شجاعت نظر آتی ہے وہ محض طاقت نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے اندرونی نظم و ضبط اور اخلاقی تربیت تھی۔ اُمّ‌البنینؑ خود قبیلہ بنی کلاب سے تھیں جہاں شجاعت ایک وراثتی صفت تھی، لیکن انہوں نے اس جذبے کو علیؑ کی اخلاقی تربیت کے ساتھ جوڑ کر کربلا کے مستقبل کے لیے پیش کیا۔  

تیسرا اصول محبت بھری تربیت تھا۔ وہ ایک مہربان ماں تھیں لیکن ان کی محبت کبھی بیٹوں کے دینی فریضے میں رکاوٹ نہ بنی۔ روایت ہے کہ جب کربلا کے اسیر واپس آئے اور عباسؑ و دیگر بیٹوں کی شہادت کی خبر دی، تو انہوں نے فوراً کہا: مجھے حسینؑ کے بارے میں بتاؤ…" یہ جملہ ان کی تربیت کا خلاصہ ہے؛ ایک ماں جس کی اولین ترجیح اپنی اولاد نہیں بلکہ ولایت ہے۔  

چوتھا اصول خدمتِ امام کی روح پیدا کرنا تھا۔ اُمّ‌البنینؑ نے کبھی نہیں چاہا کہ ان کے بیٹے سید زادہ یا اشراف زادہ کہلائیں، بلکہ انہیں امام اور ولایت کے خادم بنایا۔ حضرت عباسؑ اسی تربیت اور درس کا روشن نتیجہ ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو اس طرح تربیت دی کہ ان کی شناخت کا معیار ولایت ہو اور ان کے فخر کا معیار نسب یا خاندان نہیں بلکہ خدمت ہو۔

حضرت ام البنینؑ کی معرفت کا منبع کیا تھا؟

حضرت اُمّ‌البنینؑ کی ولایت شناسی عام تصور کے برخلاف محض وقتی جذبات یا خاندانی وابستگی کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ اس کی بنیاد مضبوط خاندانی پس منظر، گہری دینی تربیت اور عقلانی شناخت پر تھی۔ ان کا تعلق قبیلہ بنی کلاب سے تھا جو وفائے عہد، شجاعت، اخلاقی پاکیزگی اور دینی اقدار کی پاسداری کے لیے مشہور تھا۔ یہی پس منظر ان کے لیے دین کے بنیادی مفاہیم خصوصا ولایت کو گہرائی سے سمجھنے کا بہترین میدان فراہم کرتا تھا۔  

امیرالمؤمنینؑ کا حضرت فاطمہ بنت حِزام (اُمّ‌البنینؑ) کو شریک حیات کے طور پر منتخب کرنا محض ایک خاندانی فیصلہ نہیں تھا، بلکہ ان کی معنوی، عقلانی اور روحانی صلاحیتوں کو دیکھ کر کیا گیا تھا۔ یہ انتخاب اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ابتدا ہی سے امامت کے مراتب کو سمجھنے کی خاص استعداد رکھتی تھیں۔ ان کے عملی رویے بھی اس معرفت کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں؛ مثلاً حضرت زہراؑ کے فرزندوں کی حرمت کا خاص خیال رکھنا اور امام حسنؑ و امام حسینؑ کے سامنے خود کو ماں کہلانے سے گریز کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ امامت کے مقام کو خاندانی جذبات پر مقدم سمجھتی تھیں۔  

دینی علم اور خاندانی تربیت کے ساتھ ساتھ قلبی و روحانی صفات بھی ان کی ولایت شناسی میں مؤثر رہیں۔ اسی وجہ سے اُمّ‌البنینؑ نہ صرف امیرالمؤمنینؑ کی شریک حیات کے طور پر بلکہ ایک باشعور اور صاحب بصیرت خاتون کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ عاشورا کے بعد کے واقعات میں بھی انہوں نے اپنی وفاداری کو واضح طور پر ظاہر کیا۔ یوں حضرت اُمّ‌البنینؑ کی ولایت شناسی کا سرچشمہ قبیلہ کی بنیادیں، امام کا حکمت پر مبنی انتخاب، معنوی تربیت اور روحانی صفات تھیں، جنہوں نے انہیں ایک کم نظیر خاتون بنایا جو بصیرت اور ولایت کے ساتھ وفاداری کی اعلی مثال ہیں۔

News ID 1936901

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha